Tuesday, August 2, 2022

دو ہی گواہ تھے میری محبت کے__وقت اور وہ

دو ہی گواہ تھے میری محبت کے__وقت اور وہ

 

دو ہی گواہ تھے میری محبت کے__وقت اور وہ

ایک گزر گیا_____________دوسرا مکر گیا 



ghazal 

توڑ کے آسمان سے لائے ھوئے ھیں ہم


کیا چیز تھی، کیا چیز تھی،ظالم کی نظر

کیا چیز تھی، کیا چیز تھی،ظالم کی نظر



 کیا چیز تھی، کیا چیز تھی،ظالم کی نظر

اف کر کے وہین بیٹھ گیا، درد جگر بھی


ھوتی ہی نہین، شب فرقت کی سیاھی

رخصت ھویی کیا، شام کے ہمراہ سحر بھی


یہ مجرم الفت ہے، تو مجرم  دیدار

دل لکے چلے ھو،لیے جاو نظر بھی


کیا دیکھین گے ہم جلوہ محبوب،کہ ہم سے

دیکھی نہ گئی،دیکھنے والے کی نظر بھی


مایوس شب ہجر نہ ھو، اے دل بے تاب

سللہ دکھایے گا، دیکھین گے سحر بھی


جلوہ کو ترے دیکھ کے، جی چاہ رھا ہے

انکھون مین اتر ایے،مرا کیف نظر بھی


وعظ نہ ڈرا مجھ کو، قیامت کی سحر سے

دیکھی ان انکھون نے، قیامت کی سحر بھی






Monday, August 1, 2022

اب تیرا کھیل ، کھیل رہا ہوں میں اپنے ساتھ

اب تیرا کھیل ، کھیل رہا ہوں میں اپنے ساتھ

 

اب تیرا کھیل ، کھیل رہا ہوں میں اپنے ساتھ

خود کو پکارتا ہوں اور آتا نہیں ہوں میں







سائل ھے مگر "دستِ طلب کانپ رہا ھے،،

سائل ھے مگر "دستِ طلب کانپ رہا ھے،،


 سائل ھے مگر دستِ طلب کانپ رہا ھے

یہ شخص مُجھـے مانگنـے والا نہیں لگتا









روز تھکتی ہوں میں کر کر کے مرمت اپنی

روز تھکتی ہوں میں کر کر کے مرمت اپنی


 روز تھکتی ہوں میں کر کر کے مرمت اپنی 

روز ایک نقص نیا مجھ میں نکل آتا ہے








کوئی وعدہ نہیں ہم میں

کوئی وعدہ نہیں ہم میں

 کوئی وعدہ نہیں ہم میں

نہ آپس میں بہت باتیں


نہ ملنے میں بہت شوخی

نہ آخرِ شب کوئی مناجاتیں


مگر ایک ان کہی سی ہے

جو ہم دونوں سمجھتے ہیں


عجب ایک سرگوشی سی ہے

جو ہم دونوں سمجھتے ہیں


یہ سارے دلرُبا منظر

طلسمی چاندنی راتیں


سنہری دُھوپ کے موسم

یہ ہلکے سُکھ کی برساتیں


سبھی ایک ضد میں رہتے ہیں

مجھے پیہم یہ کہتے ہیں


محبت یوں نہیں اچھی

محبت یوں نہیں اچھی





ghazal 

کسی نے دیکھا تھا ہاتھ میرا


ھم کو ذوق دید لے آیا کہاں

ھم کو ذوق دید لے آیا کہاں

 

ھم کو ذوق دید لے آیا کہاں

آئینہ ہم، ہم نظر ,ہم روبرو​



سروں کا ایک دریا ہے رواں کس بحر کی جانب


اس انجمن میں یہ نظمِ نشست کیا کہنے

اس انجمن میں یہ نظمِ نشست کیا کہنے

 غزل

اس انجمن میں یہ نظمِ نشست کیا کہنے

ہیں ایک درجے میں سب خوب و زشت کیا کہنے


اسی چراغ نے اس دل میں روشنی بھردی 

نگاہِ خواجۂ دربارِ چشت کیا کہنے


یہاں پہ رہنا ہے اک نعمتِ خداوندی

ترا دیار ہے رشکِ بہشت، کیا کہنے


یہ اپنا ملنا بچھڑنا, بچھڑ کے پھر ملنا

لکھا یہی ہے سرِ سرنوشت، کیا کہنے


یہاں کے موسمِ برسات میں برستے ہیں 

کہیں پہ پھول کہیں سنگ و خشت کیا کہنے


وہ سیم تن ہے یا سیماب دل ہے یا کیا ہے 

عجیب پائی ہے اس نے سرشت کیا کہنے


حسین ثاقب



کسی نے دیکھا تھا ہاتھ میرا


من کو سمجھایا تھا کہ اِس عشق وِشق سے دور رہنا

من کو سمجھایا تھا کہ اِس عشق وِشق سے دور رہنا

 

من کو سمجھایا تھا کہ اِس عشق وِشق سے دور رہنا
 
پر یہ من.من ہی من میں  اپنی منمانی کر بیٹھا






محبتیں جب شمار کرنا تو سازشیں بھی شمار کرنا

محبتیں جب شمار کرنا تو سازشیں بھی شمار کرنا

 

محبتیں جب شمار کرنا تو سازشیں بھی شمار کرنا

جو میرے حصے میں آئی ہیں وہ اذیتیں بھی شمار کرنا 


جلائے رکھوں گی صبح تک میں تمہارے رستوں میں اپنی آنکھیں 

مگر کہیں ضبط ٹوٹ جائے تو بارشیں بھی شمار کرنا 


جو حرف لوح وفا پہ لکھے ہوئے ہیں ان کو بھی دیکھ لینا 

جو رائیگاں ہو گئیں وہ ساری عبارتیں بھی شمار کرنا 


یہ سردیوں کا اداس موسم کہ دھڑکنیں برف ہو گئی ہیں 

جب ان کی یخ بستگی پرکھنا تمازتیں بھی شمار کرنا 


تم اپنی مجبوریوں کے قصے ضرور لکھنا وضاحتوں سے 

جو میری آنکھوں میں جل بجھی ہیں وہ خواہشیں بھی شمار کرنا 


نوشی گیلانی




Mohabbat Ka Naam De Kar


پھر گفتگو میں آ گئے پُرکھوں کے عمامے

پھر گفتگو میں آ گئے پُرکھوں کے عمامے

 

پھر گفتگو میں آ گئے پُرکھوں کے عمامے

میں چاہتا یہ تھا تیرے گھونگٹ پہ بات ہو