Friday, August 5, 2022

‏ہزاروں بھیس بدل کر بھی نا مراد رہا

‏ہزاروں بھیس بدل کر بھی نا مراد رہا

 ‏ہزاروں بھیس بدل کر بھی نا مراد رہا

مرے خدا تری دنیا نہیں کھلی مجھ پر 


راکب مختار


خوبی ہے عاقلوں کی تماشا کہیں جسے

یُوں رن کے درمیاں پسرِ مرتضیؑ چلے

یُوں رن کے درمیاں پسرِ مرتضیؑ چلے

 ـ ـ ـ ـ ـ ـ دَر مدحِ شہیدِ کربلاؑ ـ ـ ـ ـ ـ ـ

یُوں رن کے درمیاں پسرِ مرتضیؑ چلے 

جیسے ہجومِ کفر میں نُورِ خُدا چلے

 

مقتل میں سر کٹانے کو اہلِ رضا چلے 

پیماں شبِ الست کا کرنے وفا چلے

 

بولے حُسینؑ ہو نہ سکے گا وہ مندمل 

اصغرؑ! جو زخم تم مِرے دل پَر لگا چلے

 

ہستی بقدرِ فرصتِ رقصِ شرر مِلی 

تم اِس سَرائے فانی میں کیا آئے کیا چلے

 

گُزرا گراں ذرَا نہ کڑی دھوپ کا سَفر 

شبیّرؑ زِیر سَایہ فضلِ خدا چلے

 

زہراؑ کے لاَڈلوں کو دُعا دِے تو کربلا 

تو کیا تھی، اُور وُہ تجھے کیا کیا بَنا چلے

 

اُن مَنزلوں کو سَر کیا آخر حُسینؑ نے

جِن مَنزلوں کا عَزم لیے اَنبیاء چلے


ہے مرقدِ سکیّنہ اَدبِ گاہِ کائنات 

بِے باک اِس قَدر نہ یہاں پَر صَبا چلے

 

شبّیرؑ ہے وہ تاجورِ کشورِ عطا 

جس کی گلی میں شاہ بھی بن کر گدا چلے


اِبنِ علیؑ کی مِثل نہ دیکھا کوئی سخی 

آئی جو حق پِے آنچ تو کُنبہ لُٹا چلے

 

اِحسان کوئی مانے نہ مانے حُسینؑ کا 

سر پِیش کر دیا، مگر اُمّت بَچا چلے

 

جی بھر کے رو سکے نہ تِرے غم میں اے حُسینؑ

ہم بد نصیب دہر میں کیا آئے، کیا چلے


سُننے کو سَیّدوں کے مَصائب کا تذکرہ 

اصحابِ درد جانبِ بزمِ عزا چلے

 

دِکھلا کے خواب میں رُخ پُر نور کی جَھلک 

وہ مِرے غمکدے کا مقدر جگا چلے

 

کُھلتا نہیں حُسینؑ و حَسنؑ ہیں کہ مصطفےٰ

کچھ فرق ہو "نصِیرؔ" تو کوئی پتہ چلے۔


فرمُودۂ الشیخ سیّدپِیرنصِیرالدّین نصِیرؔ جیلانی،

رحمتُ اللّٰه تعالٰی علیہ، گولڑہ شریف

بیادِ بندۂ نصِیرؔ شاہد محی الدینؒ

از خالد شاہم، عابد محی الدّین ۔

ان دیکهی کائنات کا گیت

ان دیکهی کائنات کا گیت

 ان دیکهی کائنات کا گیت

میں دیکهنا چاہتی ہوں
شفاف پانی میں 

آسمان کی نیلاہٹ کو جذب ہوتے ہوئے

دور افق پر سرمئی بادلوں کو 

روئی جیسےسبک سفید گالوں میں ڈهلتے ہوئے

کسی جهیل کی آغوش میں خوش رنگ کنول کو کهلتے ہوئے 

سمندر کی جهاگ اڑاتی موجوں میں

ہوا کو سرمست ہوتے ہوئے

ساحلوں کی نرم ہوا کو 

نم ریت کا بدن گدگداتے ہوئے 

اور 

میں دیکهتے رہنا چاہتی ہوں 

بہت قریب سے۔۔۔۔

تمہیں مسکراتے ہوئے



نہیں رنگت گلابوں میں،کہاں تم کھو گئے جاناں



‏جان پیاری تھی مگر جان سے پیارے تم تھے..

‏جان پیاری تھی مگر جان سے پیارے تم تھے..

 ‏جان پیاری تھی مگر جان سے پیارے تم تھے.. 

جو کہا تم نے وہ مانا گیا ، ٹالا نہ گیا... 


پیر سید نصیرالدین نصیر ؒ


ان دیکهی کائنات کا گیت

میں زوال عشق کی سب سے حسیں کہانی ہوں

میں زوال عشق کی سب سے حسیں کہانی ہوں

 میں زوال عشق کی سب سے حسیں کہانی ہوں, 

اور رائیگانی کی سب سے خوبصورت مثال ہوں, 

جو تیری نگاہ مجھ پہ نہ رکے تو میں ناکام ساحرہ 

اور اگر تیری نگاہ مجھی پہ قیام کر لے  

تو مجھ سا حسین دنیا میں کوئ نہیں

 

 

‏جان پیاری تھی مگر جان سے پیارے تم تھے..

رکھتے ہو اگر علم تو پھر شاہ علی ہے

رکھتے ہو اگر علم تو پھر شاہ علی ہے

 رکھتے ہو اگر علم تو پھر شاہ علی ہے 


شاہوں کی بلندی میں شہنشاہ علی ہے 


یہ ہوش کی کونین ہے آگاہ علی ہے 


مولیٰ کو پکارو گے تو سب راہ علی ہے 


شہرِ حُسن

مسئلہ ہوں تو نگاہیں نہ چُراؤ مجھ سے،،

مسئلہ ہوں تو نگاہیں نہ چُراؤ مجھ سے،،

 مسئلہ ہوں تو نگاہیں نہ چُراؤ مجھ سے

اپنی چاہت سے توجہ سے مجھے حَل کر دو





آرزو دل کی مِرے اب کے نہ ارمان بنے

آرزو دل کی مِرے اب کے نہ ارمان بنے

 

آرزو دل کی مِرے اب کے نہ ارمان بنے 

دیکھ لے مجھ کو کہیں دل میں نہ حرمان بنے 


میرے ہونے کا اجر مجھ کو یہیں مل جاتا 

بھول کر بھی جو کبھی تو مِرا مہمان بنے 


ہوں تو مٹی کی مگر تم ہی سے مانگی ہوں خدا 

جوں سمندر کو دی اس طرح مِری جان بنے 


ہاتھ میں جن کے خزانے ہیں یقیں ہے ان کو 

بے یقیں دل ہیں وہی دل جہاں ارمان بنے 


ایک وہ دور کہ جب رنگِ لہو لال میں تھا 

ایک یہ وقتِ غضب دوست بھی انجان بنے 


ہوش کر آدمی یہ وقت کسی کا بھی نہیں 

وہ بھی کل شہر تھے جو آج میں ویران بنے 


مٹی مٹی میں ملی جب کے تھے انسان بنے 

اور تم دشت میں پھرتے ہو ابھی خان بنے 


آپ سے بن نہیں پاتی ہے سخن میں بھی زمیں 

جب مِری خاکِ خوں تڑپی کئی دیوان بنے 


جب کسی بحر میں آئو تو کرو یوں وحشت 

دل کے اٹھتے ہوئے شعلے سے گلستان بنے 


مسکراتی ہوئی دیکھے ہے ابھی حور مجھے 

کیوں نہ پھر یار طبیبا مِری مسکان بنے 


ہم غریبوں کو مٹانے کا ہی سامان بنے 

تُو نہ چاہے تو یہاں کب کوئی سلطان بنے 


لاکھ شاعر زمیں میں میری سخن کرتے ہیں 

میرے اک شعر کی تشریح میں دیوان بنے 


شہرِ حُسن


میں زوال عشق کی سب سے حسیں کہانی ہوں


سروں کا ایک دریا ہے رواں کس بحر کی جانب

سروں کا ایک دریا ہے رواں کس بحر کی جانب

 غزل


حسین ثاقب


سروں کا ایک دریا ہے رواں کس بحر کی جانب

فصیلِ شہرِ بے پروا سے قلبِ شہر کی جانب


شہادت کا سفر ہے پھر وفا کی لہر کی جانب

یہ دل بھی گامزن ہے علقمہ کی نہر کی جانب


ہے ہر سفلہ نفس قابض ترے گلزارِ ہستی پر

کرم کی اک نظر ہو آج نظمِ دہر کی جانب


بلائیں کاٹ کھانے کو سبھی تیار بیٹھی ہیں

کہ جوں جوں شب چلی جاتی ہے پچھلے پہر کی جانب


یہ نظریں دیکھتی ہیں بے یقینی بے بسی سے کیوں

کبھی تریاق کی جانب کبھی اس زہر کی جانب


بھٹکتےتھے تمدٌن کے لئے جو دشتِ غربت میں

وہ بڑھتے جا رہے ہیں ماوراء النہر کی جانب

اپنے دیدار کی حسرت مین

اپنے دیدار کی حسرت مین


 اپنے دیدار کی حسرت مین، تو مجھکو سراپا دل کردے

ہر قطرہ دل کو قیس بنا، ہر ذرہ کو محمل کردے

دنیائے حسن و عشق مری، کرنا ہے تو یوں کامل کر دے

اپنے جلوے میری حیرت نظارہ، مین شامل کردے

یان طور و کلیم نہین نہ سہی، مین حاضر ھوں لے پھونک مجھے

برکھے کو اٹھا دے مکھڑے سے، برباد سکون دل کردے

گر قلزم عشق ہے بے ساحل، اے خضر، تو بے ساحل ہی سہی

جس موج مین ڈوبے کشتی دل، اس موج کو ساحل کردے

اے درد عطاء کرنے والے، تو درد مجھے اتنا دے دے

جو دونوں جہاں کی وسعت کو، اک گوشہء دامن دل کردے

ہر سو سے غم نے گھیرا ہے، اب ہے تو سہارا تیرا ہے

مشکلین آسان کرنے والے، آسان میری مشکل کردے... ب

یدم وارثی


آرزو دل کی مِرے اب کے نہ ارمان بنے


Thursday, August 4, 2022

تم گرانے میں لگے تھے تم نے سوچا ہی نہیں

تم گرانے میں لگے تھے تم نے سوچا ہی نہیں

 تم گرانے میں لگے تھے تم نے سوچا ہی نہیں 

میں گرا تو مسئلہ بن کر کھڑا ہو جاؤں گا 


وسیم بریلوی


محبت میں پریشانی رہے گی