Monday, May 29, 2023

درد ہو گر دل میں،،،،تو دوا کیجیئے،

درد ہو گر دل میں،،،،تو دوا کیجیئے،

 درد ہو گر دل میں،،،،تو دوا کیجیئے

دل ہی جب درد ہو ،,,,,,تو کیا کیجئے

ہم کو فریاد کرنی آتی ہے 

آپ ہی سنتے نہیں تو کیا کیجیئے

ان بتوں کو خدا سے کیا مطلب؟

طوبہ طوبہ ،خدا خدا کیجیئے

رنج اٹہانے سے بہی خوشی ہوگی 

پہلے دل درد ........ آشنا کیجیئے

عرضِ شوخی نشاطِ عالم ہے

حسن کو اور خوش نما کیجئیے

دشمنی ہو چکی بہ قدرِ وفا

اب حقِ دوستی ادا کیجیئے

موت آتی نہیں_____ کہیں غالب

کب تک افسوس زیست کا کیجے


مرزا اسد اللہ غالب

read more

من کو سمجھایا تھا کہ اِس عشق وِشق سے دور رہنا

our


Saturday, December 31, 2022

دلوں کو توڑنے والو تمہیں کسی سے کیا

دلوں کو توڑنے والو تمہیں کسی سے کیا




 دلوں کو توڑنے والو تمہیں کسی سے کیا 

ملو تو آنکھ چرا لو تمہیں کسی سے کیا 

ہماری لغزش پا کا خیال کیوں ہے تمہیں 

تم اپنی چال سنبھالو تمہیں کسی سے کیا 

چمک کے اور بڑھاؤ مری سیہ بختی 

کسی کے گھر کے اجالو تمہیں کسی سے کیا 

نظر بچا کے گزر جاؤ میری تربت سے 

کسی پہ خاک نہ ڈالو تمہیں کسی سے کیا 

مجھے خود اپنی نظر میں بنا کے بیگانہ 

جہاں کو اپنا بنا لو تمہیں کسی سے کیا 

قریب نزع بھی کیوں چین لے سکے کوئی 

نقاب رخ سے اٹھا لو تمہیں کسی سے کیا 


سیف الدین سیف

read more

آپھر کریں یار طرحدار،کی باتیں

our

ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں

ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں

 


ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں

اب ٹھہرتی ہے دیکھیے جا کر نظر کہاں

ہے دورِ جام اول شب میں خودی سے دور

ہوتی ہے آج دیکھیے ہم کو سحر کہاں

یارب اس اختلاط کا انجام ہو بخیر

تھا اس کو ہم سے ربط مگر اس قدر کہاں

اک عمر چاہیے کہ گوارا ہو نیش عشق

رکھی ہے آج لذتِ زخمِ جگر کہاں

بس ہو چکا بیان کسل و رنج راہ کا

خط کا مرے جواب ہے اے نامہ بر کہاں

کون و مکاں سے ہے دلِ وحشی کنارہ گیر

اس خانماں خراب نے ڈھونڈا ہے گھر کہاں

ہم جس پہ مر رہے ہیں وہ بات ہے کچھ اور

عالم میں تجھ سے لاکھ سہی تو مگر کہاں

ہوتی نہیں قبول دعا ترکِ عشق کی

جی چاہتا نہ ہو تو زبان میں اثر کہاں

حالی نشاطِ نغمہ و مے ڈھونڈتے ہو اب

آئے ہو وقتِ صبح، رہے رات بھر کہاں


مولانا الطاف حسین حالی

read more

نصیب والی ہوں تیری لگن میں رہتی ہوں

our

Friday, December 30, 2022

سانس لینا بھی سزا لگتا ہے

سانس لینا بھی سزا لگتا ہے

 

یادیں

سانس لینا بھی سزا لگتا ہے 

اَب تو مرنا بھی رَوا لگتا ہے 

کوہِ غم پر سے جو دیکھوں تو مجھے 

دشت آغوش فنا لگتا ہے 

سرِ بازار ہے یاروں کی تلاش 

جو گزرتا ہے خفا لگتا ہے 

موسمِ گل میں سرِ شاخ گلاب 

شعلہ بھڑکے تو بجا لگتا ہے 

مسکراتا ہے جو اس عالم میں 

با خدا مجھ کو خدا لگتا ہے 

اتنا مانوس ہوں سناٹے سے 

کوئی بولے تو برا لگتا ہے 

ان سے مل کر بھی نہ کافور ہوا 

درد یہ سب سے جدا لگتا ہے 

نطق کا ساتھ نہیں دیتا ذہن 

شکر کرتا ہوں گلہ لگتا ہے 

اس قدر تند ہے رفتار حیات 

وقت بھی رشتہ بپا لگتا ہے


احمد ندیم قاسمی

read more

عشق جب تیز دھار ہوتا ہے

our

جلوہ بے مایہ سا تھا چشم و نظر سے پہلے

جلوہ بے مایہ سا تھا چشم و نظر سے پہلے

 

جلوہ بے مایہ سا تھا چشم و نظر سے پہلے

زیست اک حادثہ تھی قلب و جگر سے پہلے

حسن کے سوز نمائش کا ہے انعام حیات

وقت بھی وقت نہ تھا شمس و قمر سے پہلے

وحی اتری دل بے تاب کی تشکیل کے بعد

عشق تعمیر ہوا علم و ہنر سے پہلے

عین فردوس میں جل اٹھا تھا آدم کا شباب

آگ برسی تھی یہیں دیدۂ تر سے پہلے

پھر کہیں دل کے سوا ان کو اماں ہی نہ ملی

بت نکالے گئے اللہ کے گھر سے پہلے

زندگی مزرع تکلیف و سکوں ہے افضلؔ

شام اگتی ہے یہاں نور سحر سے پہلے


شیر افضل جعفری 

read more 

مُجھے شَکل دَے کے تَمام کر کَفِ کُوزَہ گَر


شرما گئے لجا گئے دامن چھڑا گئے

 

شرما گئے لجا گئے دامن چھڑا گئے


شرما گئے لجا گئے دامن چھڑا گئے 

اے عشق مرحبا وہ یہاں تک تو آ گئے 

دل پر ہزار طرح کے اوہام چھا گئے 

یہ تم نے کیا کیا مری دنیا میں آ گئے 

سب کچھ لٹا کے راہ محبت میں اہل دل 

خوش ہیں کہ جیسے دولت کونین پا گئے 

صحن چمن کو اپنی بہاروں پہ ناز تھا 

وہ آ گئے تو ساری بہاروں پہ چھا گئے 

عقل و جنوں میں سب کی تھیں راہیں جدا جدا 

پھر پھر کے لیکن ایک ہی منزل پہ آ گئے 

اب کیا کروں میں فطرت ناکام عشق کو 

جتنے تھے حادثات مجھے راس آ گئے 


               جگر مرادآبادی

read more

دیوار شب اور عکس رخ یار سامنے

our

تم حقیقت نہیں ہو حسرت ہو

تم حقیقت نہیں ہو حسرت ہو




 تم حقیقت نہیں ہو حسرت ہو

جو ملے خواب میں وہ دولت ہو

میں تمہارے ہی دم سے زندہ ہوں

مر ہی جاؤں جو تم سے فرصت ہو

تم ہو خوشبو کے خواب کی خوشبو

اور اتنی ہی_______ بے مروت ہو

تم ہو پہلومیں___پر قرار نہیں

یعنی ایسا ہے جیسے فرقت ہو

تم ہو انگڑائی رنگ و نکہت کی

کیسے انگڑائی سے شکایت ہو

کس لئے______ دیکھتی ہو آئینہ

تم تو خود سے بھی خوبصورت ہو

کس طرح چھوڑ دوں تمہیں جاناں

تم مری زندگی کی_____ عادت ہو

داستاں ختم____ ہونے والی ہے

تم مری آخری______محبت ہو۔۔۔


سید جون ایلیاء

read more

ھائے!دنیا کے ستم یاد،نہ اپنی ہی وفا یاد

our

اداسی میں گِھرا تھا دل، چراغِ شام سے پہلے

اداسی میں گِھرا تھا دل، چراغِ شام سے پہلے

 

اداسی میں گِھرا تھا دل، چراغِ شام سے پہلے

 نہیں تھا کُچھ سرِ محفل، چراغِ شام سے پہلے

 حُدی خوانو، بڑھاؤ لَے، اندھیرا ہونے والا ہے

 پہنچنا ہے سرِ منزل، چراغِ شام سے پہلے

 دلوں میں اور ستاروں میں اچانک جاگ اٹھتی ہے

 عجب ہلچل، عجب جھل مِل، چراغِ شام سے پہلے

 وہ ویسے ہی وہاں رکھی ہے، عصرِ آخرِ شب میں

جو سینے پر دھری تھی سِل، چراغِ شام سے پہلے

 ہم اپنی عمر کی ڈھلتی ہوئی اِک سہ پہر میں ہیں

 جو ملنا ہے ہمیں تو مل، چراغِ شام سے پہلے

 ہمیں اے دوستو! اب کشتیوں میں رات کرنی ہے

 کہ چھپ جاتے ہیں سب ساحل، چراغِ شام سے پہلے

 سحر کا اولیں تارا ہے جیسے رات کا ماضی

 ہے دن کا بھی تو مستقبل، چراغِ شام سے پہلے

 نجانے زندگی اور رات میں کیسا تعلق ہے

الجھتی کیوں ہے اتنی گِل چراغِ شام سے پہلے

 محبت نے رگوں میں کِس طرح کی روشنی بھر دی

کہ جل اٹھتا ہے امجد دل، چراغِ شام سے پہلے


 امجد اسلام امجد

read more

یہ سوز اندروں تا کہ،یہ چشم خونفشاں کب تک

our

دل میں کسی کے راہ کئے جا رہا ہوں میں


دل میں کسی کے راہ کئے جا رہا ہوں میں


 غزل


دل میں کسی کے راہ کئے جا رہا ہوں میں 

دل میں کسی کے راہ کئے جا رہا ہوں میں 

کتنا حسیں گناہ کئے جا رہا ہوں میں 

دنیائے دل تباہ کئے جا رہا ہوں میں 

صرف نگاہ و آہ کئے جا رہا ہوں میں 

فرد عمل سیاہ کئے جا رہا ہوں میں 

رحمت کو بے پناہ کئے جا رہا ہوں میں 

ایسی بھی اک نگاہ کئے جا رہا ہوں میں 

ذروں کو مہر و ماہ کئے جا رہا ہوں میں 

مجھ سے لگے ہیں عشق کی عظمت کو چار چاند 

خود حسن کو گواہ کئے جا رہا ہوں میں 

دفتر ہے ایک معنئ بے لفظ و صوت کا 

سادہ سی جو نگاہ کئے جا رہا ہوں میں 

آگے قدم بڑھائیں جنہیں سوجھتا نہیں 

روشن چراغ راہ کئے جا رہا ہوں میں 

معصومئ جمال کو بھی جن پہ رشک ہے 

ایسے بھی کچھ گناہ کئے جا رہا ہوں میں 

تنقید حسن مصلحت خاص عشق ہے 

یہ جرم گاہ گاہ کئے جا رہا ہوں میں 

اٹھتی نہیں ہے آنکھ مگر اس کے روبرو 

نادیدہ اک نگاہ کئے جا رہا ہوں میں 

گلشن پرست ہوں مجھے گل ہی نہیں عزیز 

کانٹوں سے بھی نباہ کئے جا رہا ہوں میں 

یوں زندگی گزار رہا ہوں ترے بغیر 

جیسے کوئی گناہ کئے جا رہا ہوں میں 

مجھ سے ادا ہوا ہے جگرؔ جستجو کا حق 

ہر ذرے کو گواہ کئے جا رہا ہوں میں 


جگرؔ مرادآبادی

read more

جس نے تری آنکھوں میں شرارت نہیں دیکھی

جس نے تری آنکھوں میں شرارت نہیں دیکھی

 

جس نے تری آنکھوں میں شرارت نہیں دیکھی 

وہ لاکھ کہے اس نے محبت نہیں دیکھی 

اک روپ مرے خواب میں لہرا سا گیا تھا 

پھر دل میں کوئی چیز سلامت نہیں دیکھی 

آئینہ تجھے دیکھ کے گل نار ہوا تھا 

شاید تری آنکھوں نے وہ رنگت نہیں دیکھی 

یوں نقش ہوا آنکھ کی پتلی پہ وہ چہرہ 

پھر ہم نے کسی اور کی صورت نہیں دیکھی 

خیرات کیا وہ بھی جو موجود نہیں تھا 

تو نے تہی دستوں کی سخاوت نہیں دیکھی 

صد شکر گزاری ہے قیامت تن تنہا 

اس رات کسی نے مری حالت نہیں دیکھی 

کیا تجھ سے کہیں کیسے کٹی کیسے کٹے گی 

اچھا ہے کہ تو نے یہ مصیبت نہیں دیکھی 

شاید اسی باعث وہ فروزاں ہے ابھی تک 

سورج نے کبھی رات کی ظلمت نہیں دیکھی 

سب کی طرح تو نے بھی مرے عیب نکالے 

تو نے بھی خدایا مری نیت نہیں دیکھی 

تنکا ہوں مگر سیل کے رستے میں کھڑا ہوں 

اے بھاگنے والو مری ہمت نہیں دیکھی 

جو ٹھان لیا دل میں وہ کر گزرا ہوں شہزادؔ 

آئی ہوئی سر پر کوئی آفت نہیں دیکھی


read more

وہ بلائیں تو کیا تماشا ہو

our

خالی خالی سی وہاں صبح کی جھولی ہوگی

 

خالی خالی سی وہاں صبح کی جھولی ہوگی

غزل

خالی خالی سی وہاں صبح کی جھولی ہوگی

رات بھی ساتھ ہی تیرے کہیں ہَو لی ہوگی

آسماں پر تیرے ہونٹوں کے نشاں سے ہوں گے

نیلگوں عکس نے مَے سی کوئی گھولی ہوگی

ابر جھکتے ہی در و بام پہ جل تھل ہوگا

دیکھنے چھت پہ تجھے رنگوں کی ٹولی ہوگی

سبزہ مہکا ہُوا ہوگا تیرے آنگن کے قریب

شورشِ گُل میں تُو آہستہ سے بولی ہوگی

جھانکتا ہوگا کسی چھت سے مرا پاگل پن

اور کوچے میں ترے بیاہ کی ڈولی ہوگی

آج کے دن ہے کسی خوابِ حِنا کی رخصت

آج کے دن تو یہاں خون کی ہَولی ہو گی

چھپتے پھرتے ہیں شبِ قہر سے اب شہر کے لوگ

کیا کریں اب تو یہی آنکھ مچولی ہوگی

اپنے اٹھنے پہ بھی وہ باغ تو ویسا ہی رہا

ہم تو سمجھے تھے کہ کوئل بھی نہ بولی ہوگی

اے رہِ عمر سے منہ موڑ کے جانے والے

آنکھ تُو نے کسی دنیا میں تو کھولی ہوگی

اک ذرا جا کے نوید اپنی خبر لے آؤں

اُس نے گلیوں میں مری خاک تو رولی ہوگی


افضال نوید

read more

کسی کو دے کے دل کوئی نوا سنجِ فغاں کیوں ہو

our

کچی آنکھوں نے دیکھے تھے،خوش فہمی میں کچے خواب.