Based on the source provided, you can **find poetry in Urdu by famous Pakistani and Indian poets**. The source indicates that it is easy to **text copy and paste Urdu poetry** and to **read the famous Urdu shayari and the latest**.
Sunday, June 25, 2023
Friday, June 9, 2023
چَشمِ میگوں ، ذرا اِدھر کر دے
چَشمِ میگوں ، ذرا اِدھر کر دے
دَستِ قدرت کو ، بے اثر کر دے
تیز ھے آج ، دردِ دِل ساقی
تلخئ مَئے کو ، تیز تر کر دے
جوشِ وحشت ھے ، تشنہ کام ابھی
چاکِ دامن کو ، تا جِگر کر دے
میری قسمت سے کھیلنے والے
مجھ کو قسمت سے ، بے خبر کر دے
لُٹ رھی ھے میری ، متاعِ نیاز
کاش وہ اِس طرف ، نظر کر دے
فیضؔ تکمیلِ آرزُو معلوم
ںو سکے تو ، یُونہی بَسر کر دے
فیض احمّد فیض
read more
our
کیا دن مجھے عشق نے دکھائے
کیا دن مجھے عشق نے دکھائے
اِک بار جو آئے پھر نہ آئے
اُس پیکرِ ناز کا فسانہ
دل ہوش میں آۓ تو سُنائے
وہ روحِ خیال و جانِ مضموں
دل اس کو کہاں سے ڈھونڈھ لائے
آنکھیں تھیں کہ دو چھلکتے ساغر
عارض کہ شراب تھرتھرائے
مہکی ہوئ سانس نرم گفتار
ہر ایک روش پہ گل کھلائے
راہوں پہ ادا ادا سے رقصاں
آنچل میں حیا سے منہ چھپائے
اُڑتی ہوئ زلف یوں پریشاں
جیسے کوئی راہ بھول جائے
کچھ پھول برس پڑے زمیں پر
کچ8ھ گیت ہوا میں لہلہائے
ناصر کاظمی
read more
our
ہم جو ہر بار تیری بات میں آجاتے ہیں
ہم جو ہر بار تیری بات میں آجاتے ہیں
گھوم پھر کر اسی اوقات میں آجاتے ہیں
جب اسے باقی نہیں رہتی ضرورت میری
درجنوں عیب میری ذات میں آجاتے ہیں
جا پہنچتے ہیں جہاں رزق بلاتا ہے ہمیں
گھر سے چلتے ہیں مضافات میں آجاتے ہیں
ہجر کے دن تو عموما بھی نہیں ہیں آساں
اور مجھ پر یہی برسات میں آجاتے ہیں
ہم ستارے ہیں میسر نہیں آتے دن میں
عشق ذادوں کے لئیے رات میں آجاتے ہیں
وہ ہاتھ کیا ہاتھ میں آتا ہے میرے
سارے حالات میرے ہاتھ میں آجاتے ہیں
نعیم عباس ساجد
read more
our
ہونٹوں پہ کبھی ان کے میرا نام ہی آئے
ہونٹوں پہ کبھی ان کے میرا نام ہی آئے
آئے تو سہی بر سرِ الزام ہی آئے
حیران ہیں، لب بستہ ہیں، دل گیر ہیں غنچے
خوشبو کی زبانی تیرا پیغام ہی آئے
لمحاتِ مسرت ہیں تصوّر سے گریزاں
یاد آئے ہیں جب بھی غم و آلام ہی آئے
تاروں سے سجالیں گے رہ شہرِ تمنّا
مقدور نہیں صبح ، چلو شام ہی آئے
کیا راہ بدلنے کا گلہ ہم سفروں سے ۔۔۔
جس راہ سے چلے تیرے در و بام ہی آئے
تھک ہار کے بیٹھے ہیں سرِ کوئے تمنّا
کام آئے تو پھر جذبہ بے نام ہی آئے
باقی نہ رہے ساکھ ادا دشتِ جنوں کی
دل میں اگر اندیشہ انجام ہی آئے ۔۔۔
ادا جعفری مرحومہ
read more
our
سحر نے اندھی گلی کی طرف نہیں دیکھا
سحر نے اندھی گلی کی طرف نہیں دیکھا
جسے طلب تھی اسی کی طرف نہیں دیکھا
قلق تھا سب کو سمندر کی بے قراری کا
کسی نے مڑ کے ندی کی طرف نہیں دیکھا
کچوکے دیتی رہیں غربتیں مجھے لیکن
مری انا نے کسی کی طرف نہیں دیکھا
سفر کے بیچ یہ کیسا بدل گیا موسم
کہ پھر کسی نے کسی کی طرف نہیں دیکھا
تمام عمر گزاری خیال میں جس کے
تمام عمر اسی کی طرف نہیں دیکھا
یزیدیت کا اندھیرا تھا سارے کوفے میں
کسی نے سبط بنی کی طرف نہیں دیکھا
جو آئنے سے ملا آئنے پہ جھنجھلایا
کسی نے اپنی کمی کی طرف نہیں دیکھا
مزاج عید بھی سمجھا تجھے بھی پہچانا
بس ایک اپنے ہی جی کی طرف نہیں دیکھا
منظر بھوپالی
read more
اس نے دل کا حال بتانا چھوڑ دیا
our
Tuesday, June 6, 2023
ہاں یاد مجھے تم کر لینا آواز مجھے تم دے لینا
اے جذبۂ دل گر میں چاہوں
ہر چیز مقابل آ جائے
منزل کے لیے دو گام چلوں
اور سامنے منزل آ جائ
کشتی کو خدا پر چھوڑ بھی
دے کشتی کا خدا خود حافظ
مشکل تو نہیں ان موجوں
میں بہتا ہوا ساحل آ جائ
اے شمع قسم پروانوں کی
اتنا تو مری خاطر کرنا
اس وقت بھڑک کر گل ہونا
جب بانی محفل آ جائے
اس جذبۂ دل کے بارے میں
اک مشورہ تم سے لیتا ہوں
اس وقت مجھے کیا لازم ہے
جب تم پہ مرا دل آ جائے
ہاں یاد مجھے تم کر لینا
آواز مجھے تم دے لینا
اس راہ محبت میں کوئی
درپیش جو مشکل آ جائے
اب کیوں ڈھونڈوں وہ چشم کرم
ہونے دے ستم بالائے ستم
میں چاہتا ہوں اے جذبۂ
غم مشکل پس مشکل
آ جائے
اے دل کی لگی چل یونہی سہی
چلتا تو ہوں ان کی محفل میں
اس وقت مجھے چونکا دینا
جب رنگ پہ محفل آ جائے
بہزاد لکھنوی
read more
اہل خرز نہ آج تک،ڈھونڈ سکے نہ جواز عشق
our
سنا ہے کھل گئےتھے ، ان کے گیسو سیرگلشن میں
سنا ہے کھل گئےتھے ، ان کے گیسو سیرگلشن میں
صبا تیرا برا ہو ، تو نے مجھ کو بے خبر رکھا
نہ تُم آۓ شبِ وعدہ، پریشاں رات بھر رکھّا
دِیا اُمّید کا میں نے جلا کر تا سحر رکھّا
وہی دِل چھوڑ کر مجھ کو کسی کا ہو گیا آخر
جسے نازوں سے پالا، جس کو ارمانوں سے گھر رکھّا
جبیں کو مل گئ منزل، مذاقِ بندگی اُبھرا
جنوں میں ڈوب کر جس دم تری چوکھٹ پہ سر رکھّا
کہاں ہر ایک تیرے درد کی خیرات کے لائق
کرم تیرا کہ تُو نے مجھ کو بربادِ نظر رکھّا
غمِ دُنیا و مافیھا کو رُخصت کر دیا میں نے
ترا غم تھا جسے دل سے لگاۓ عُمر بھر رکھّا
سنا ہے کُھل گئے تھے اُن کے گیسو سیر گُلشن میں
صبا تیرا بُرا ہو تو نے مجھ کو بے خبر رکھّا
یہ اُسکے فیصلے ہیں جسکے حق میں جوبھی کر ڈالے
کسی کو دَر دِیا اپنا، کسی کو در بدر رکھّا
کبھی گزریں تو شاید دیکھ لوں میں اِک جھلک اُنکی
اِسی اُمیّد پر مدفن قریبِ راہ گُزر رکھّا
بھری محفل میں نا حق راز اُلفت کر دیا اِفشا
محبت کا بھرم تو نے نہ کچھ اے چشمِ تر! رکھّا
جو خط اوروں کے آۓ، اُس نے دیکھے دیر تک، لیکن
مرا خط ہاتھ میں لے کر اِدھر دیکھا اُدھر رکھّا
کوئی اُس طائر مجبور کی بے چارگی دیکھے
قفس میں بھی جسے صیّاد نے بے بال و پر رکھّا
یہ ممکن تھا ہم آ جاتے خرد مندوں کی باتوں میں
خوشا قسمت کہ فطرت نے ہمیں آشفتہ سر رکھّا
سر آنکھوں پر جسے اپنے بٹھایا عُمر بھر ہم نے
اُسی ظالم نے نظروں سے گرا کر عُمر بھر رکھّا
کہاں جا کر بھلا یوں دربدر کی ٹھوکریں کھاتے
نصیرؔ اچھّا کیا تم نے ہمیشہ ایک در رکھّا
عنایت ہے یہ تجھ پر اے نصیرؔ اُستادِ فطرت کی
کہ جو بھی لفظ رکھّا شعر میں، مثلِ گہر رکھّا
نصیرالدین نصیر
read more
نام لے لے کے ترا لوگ بُلاتے ہیں مجھے
our
خود اپنے لیے بیٹھ کے سوچیں گے کسی دن
خود اپنے لیے بیٹھ کے سوچیں گے کسی دن
یوں کہ تجھے بھول کے دیکھیں گے کسی دن
بھٹکے ہوئے پھرتے ہیں کئی لفظ جو دل میں
دنیا نے دیا وقت تو لکھیں گے کسی دن
ہل جائیں گے اک بار تو عرش کے در و بام
یہ خاک نشین لوگ جو بولیں گے کسی دن
آپس کی کسی بات کا ملتا ہی نہیں وقت
ہر بار یہ کہتے ہیں "بتائیں گے کسی دن"
اے جان! تیری یاد کے بے نام پرندے
شاخوں پہ میرے درد کی اتریں گے کسی دن
جاتی ہے کسی جھیل کی گہرائی کہاں تک
آنکھوں میں تیری ڈوب کے دیکھیں گے کسی دن
خوشبو سے بھری شام میں جگنو کے قلم سے
اک نظم تیرے واسطے لکھیں گے کسی دن
امجد ہے یہی اب کہ کفن باندھ کہ سر پر
اس شہرِ ستم گر میں جائیں گے کسی دن
امجد اسلام امجد
read more
جس نے تری آنکھوں میں شرارت نہیں دیکھی
our
یہ دشت ، یہ دریا ، یہ مہکتے ہوئے گلزار
یہ دشت ، یہ دریا ، یہ مہکتے ہوئے گلزار
اِس عالمِ امکاں میں ابھی کچھ بھی نہیں تھا
اِک ”جلوہ“ تھا ، سو گُم تھا حجاباتِ عدم میں
اِک ”عکس“ تھا ، سو منتظرِ چشمِ یقیں تھا
یہ موسمِ خوشبو ، یہ گہر تابیِ شبنم
یہ رونقِ ہنگامۂ کونین کہاں تھی ؟
گلنار گھٹاؤں سے یہ چھنتی ہوئی چھاؤں
یہ دھوپ ، دھنک ، دولتِ دارین کہاں تھی ؟
یہ نکہتِ احساس کی مقروض ہوائیں
دلدارئ الہام سے مہکے ہوئے لمحات
دوشیزۂ انفاس کی تسبیح کے تیوَر
کس کنجِ تصور میں تھے مصروفِ مناجات ؟
” شیرازۂ آئینِ قِدَم “ کے سبھی اِعراب
بے رَبطئ اجزائے سوالات میں گم تھے
یہ رنگ ، یہ نیرنگ ، یہ اورنگ ، یہ سب رنگ
اِک پردۂ افکار و خیالات میں گُم تھے !
یہ پھول ، یہ کلیاں ، یہ چٹکے ہوئے غنچے
بے آب و ہَوا ، تشنۂ آیات و مناجات
یہ برگ ، یہ برکھا ، یہ لچکتی ہوئی شاخیں
بیگانۂ آدابِ سحر ، بے نمِ جذبات
کہسار کے جھرنوں سے پھسلتی ہوئی کرنیں
اِک خوابِ مسلسل کے تحیر میں نہاں تھیں !
چپ چاپ فضاؤں میں مچلتی ہوئی لہریں
ماحول کے بے نطق تصور پہ گراں تھیں
غم خانۂ ظلمت ، نہ کوئی بزمِ چراغاں
خورشید نہ مہتاب ، نہ انجم نہ کواکب
شورش گہِ ” کُن“ تھی نہ یہ آوازِ دما دم
تفریقِ مَن و تُو نہ مساوات و مراتب
ہنگامۂ شادی نہ کوئی مجلسِ ماتم !
یلغارِ حریفاں نہ جلوسِ غمِ یاراں
آنکھوں میں کوِئی زخم نہ سینے میں کوئی چاک
انبوہِ رقیباں نہ رُخِ لالہ عذاراں
اَفلاس کا احساس نہ پندارِ زَر و سیم
بخشش کے تقاضے نہ یہ دریوزہ گری تھی
پتھر کا زمانہ تھا نہ شیشے کے مکاں تھے
یہ عقل کا دستور نہ شوریدہ سری تھی
مقتول کی فریاد نہ آوازۂ قاتل
مقتل تھے نہ شہ رگ میں لہو تھا ، نہ ہوس تھی
دربار ، نہ لشکر ، نہ کوئی عدل کی زنجیر
دل تھا ، نہ کہیں تیرگیِ کنجِ قفس تھی
رہبر تھے ، نہ منزل تھی ، نہ رستے، نہ مسافر !
قندیل ، نہ جگنو ، نہ ستارے ، نہ گہر تھے
یہ اَبیض و اَسود ، نہ اَبّ و جَد ، نہ زَر و سیم
اِنساں تھے نہ حیواں ، نہ حَجر تھے ، نہ شجر تھے
ہر سمت مسلط تھے تحیر کے طلسمات !
جیسے کسی مدفن میں ہو صدیوں کا کوئی راز
جس طرح کسی اجڑے ہوئے شہر کے سائے
یا موت کی ہچکی میں پگھلتی ہوئی آواز
جیسے کسی گھر میں صَفِ ماتم کی خموشی
یا دشت و بیاباں میں نزولِ شبِ آفات
جیسے کسی کہسار پہ تنہا کوئی خیمہ !
یا شامِ غریباں کے تصرف میں سمٰوات
ہَولے سے سرکنے لگے ہستی کے حجابات
دھیرے سے ڈھلکنے لگا تخلیق کا آنچل
چھَن چھَن کے بکھرنے لگا ، ”شیرازۂ کُن۔کُن“
رِم جھم سے برسنے لگے احساس کے بادل
پلکیں سی جھپکنے لگی دوشیزۂ کونین !
ہلچل سی ہوئی پیکرِ عالم کی رگوں میں
آفاق کے سینے میں دھڑکنے لگیں کرنیں
”شیرازہ کُن“ ڈھل بھی گیا تھا فیکوں میں
ہر سمت بکھرنے لگیں وجدان کی کرنیں
کِرنوں سے کھِلے رنگ تو رنگوں سے گلستاں
بیدار ہوئی خواب سے خوشبوئے رگِ گُل
خوشبو سے مہکنے لگا دامانِ بیاباں ،
دامانِ بیاباں میں نہاں سینۂ برفاب
برفاب کے سینے میں تلاطم بھی شرر بھی
اعجازِ لبِ کُن سے ہوئے خلق بیک وقت
صحرا بھی ، سمندر بھی ، کہستاں بھی، شجر بھی
پھر حدّتِ تخلیق کی شدت سے پگھل کر
جاگے کئی طوفان ، تہہِ سینۂ برفاب
ہر موج تھی پروردۂ آغوشِ تلاطم !
ہر قطرہ کا دل ، صورتِ بے خوابیِ سیماب
شانوں پہ اٹھائے ہوئے بارِ کفِ سیلاب
بے سمت بھٹکنے لگیں منہ زور ہوائیں
منہ زور ہواؤں کے تھپیڑوں کی دھمک سے
دل بن کے دھڑکنے لگیں بے رنگ فضائیں
بے رنگ فضاؤں کے تحیر کی کسک میں
پنہاں تھے شب و روز سے آلود زمانے
بے اَنت زمانوں کے افق تھے نہ حدیں تھیں
آخر دیا ترتیب انہیں دستِ قضا نے
پھر چشمِ تحیر نے یہ سوچا کہ فضا میں
شادابئ گلزارِ طرب ، کس کے لیے ہے ؟
یہ کون ہُوا باعثِ تخلیقِ دو عالم !
یہ ارض و سما کیوں ہیں ، یہ سب کس کے لئے ہے
تزئینِ مہ و انجمِ افلاک کا باعث
ہے کون ؟ جو خلوت کے حجابوں میں چُھپا ہے ؟
تخلیقِ رگ و ریشۂ کونین کا مقصد !
ہے کیا ؟ جو سرِ لوحِ شب روز لکھا ہے ؟
ہے کس کے لیے عشوۂ بلقیسِ تصوّر
یہ غمزۂ رخسارِ جہاں کس کے لیے ہے ؟
آرائشِ خال و خدِ ہستی کا سبب کون ؟
یہ انجمنِ کون و مکاں کس کے لیے ہے ؟
پھر ریشمِ انوار کا ملبوس پہن کر
ظاہر ہوا اِک پیکرِ صد رنگ بصد ناز
نکھرے کئی بکھرے ہوئے رنگوں کے مناظر
فطرت کی تَجلّی ہوئی آمادۂ اعجاز
وہ پیکرِ تقدیس ، وہ سرمایۂ تخلیق
وہ قبلۂ جاں ، مقصدِ تخلیقِ دو عالم
وجدان کا معیار ، مہ و مہر کا محور
وہ قافلہ سالارِ مزاجِ بنی آدم
وہ منزلِ اربابِ نظر ، فکر کی تجسیم
وہ کعبۂ تقدیرِ دو عالم ، رخِ احساس
وہ بزمِ شب و روز کا سلطانِ معظّم
وہ رونقِ رخسارۂ فیروزہ و الماس
وہ شعلگئِ شمعِ حرم ، تابشِ خورشید
وہ آئینہِ حُسنِ رُخِ ارض و سماوات
وہ جس سے رواں موجِ تبسم کی سبیلیں
وہ جس کے تکلم کی دھنک چشمۂ آیات
وہ جس کا ثنا خواں دلِ فطرت کا تکلم !
ہستی کے مناظر ، خمِ ابرو کے اشارے
آفاق ہیں دامن کی صباحت پہ تصدق
قدموں کے نشاں ڈھونڈتے پھرتے ہیں ستارے
اُس رحمتِ عالم کا قصیدہ کہوں کیسے ؟
جو مہرِ عنایات بھی ہو ، ابرِ کرم بھی
کیا اُس کے لیے نذر کروں ، جس کی ثنا میں
سجدے میں الفاظ بھی، سطریں بھی ، قلم بھی !
اس کے بعد کا حصہ بڑا ہی زبردست ہے!!!
چہرہ ہے کہ انوارِ دو عالم کا صحیفہ
آنکھیں ہیں کہ بحرینِ تقدس کے نگیں ہیں
ماتھا ہے کہ وحدت کی تجلی کا ورق ہے
عارِض ہیں کہ ”والفجر“ کی آیات کے اَمیں ہیں
گیسو ہیں کہ ”وَاللَّیل“ کے بکھرے ہوئے سائے
ابرو ہیں کہ قوسینِ شبِ قدر کھُلے ہیں
گردن ہے کہ بَر فرقِ زمیں اَوجِ ثریا
لب، صورتِ یاقوت شعاعوں میں دُھلے ہیں
قَد ہے کہ نبوت کے خد و خال کا معیار
بازو ہیں کہ توحید کی عظمت کے عَلَم ہیں
سینہ ہے کہ رمزِ دلِ ہستی کا خزینہ
پلکیں ہیں کہ الفاظِ رُخِ لوح و قلم ہیں
باتیں ہیں کہ طُوبیٰ کی چٹکتی ہوئی کلیاں
لہجہ ہے کہ یزداں کی زباں بول رہی ہے
خطبے ہیں کہ ساون کے امنڈتے ہوئے دریا
قِرأت ہے کہ اسرارِ جہاں کھول رہی ہے
یہ دانت ، یہ شیرازۂ شبنم کے تراشے
یاقوت کی وادی میں دمکتے ہوئے ہیرے
شرمندۂ تابِ لب و دندانِ پیمبرﷺ
حرفے بہ ثنا خوانی و خامہ بہ صریرے
یہ موجِ تبسم ہے کہ رنگوں کی دھنک ہے
یہ عکسِ متانت ہے کہ ٹھہرا ہوا موسم
یہ شکر کے سجدے ہیں کہ آیات کی تنزیل
یہ آنکھ میں آنسو ہیں کہ الہام کی رِم جھم
یہ ہاتھ یہ کونین کی تقدیر کے اوراق
یہ خط ، یہ خد و خالِ رُخِ مصحف و انجیل
یہ پاؤں یہ مہتاب کی کرنوں کے مَعابِد
یہ نقشِ قدم ، بوسہ گہِ رَف رَف و جبریل
یہ رفعتِ دستار ہے یا اوجِ تخیل !
یہ بندِ قبا ہے کہ شگفتِ گُلِ ناہید
یہ سایۂ داماں ہے کہ پھیلا ہوا بادل
یہ صبحِ گریباں ہے کہ خمیازۂ خورشید
یہ دوش پہ چادر ہے کہ بخشش کی گھٹا ہے
یہ مہرِ نبوت ہے کہ نقشِ دلِ مہتاب
رخسار کی ضَو ہے کہ نمو صبحِ ازل کی
آنکھوں کی ملاحت ہے کہ روئے شبِ کم خواب
ہر نقشِ بدن اتنا مناسب ہے کہ جیسے
تزئینِ شب و روز کہ تمثیلِ مہ و سال
ملبوسِ کہن یوں شکن آلود ہے جیسے
ترتیب سے پہلے رُخِ ہستی کے خد و خال
رفتار میں افلاک کی گردش کا تصور
کردار میں شامل بنی ہاشم کی اَنا ہے
گفتار میں قرآں کی صداقت کا تیقُّن
معیار میں گردُوں کی بلندی کفِ پا ہے
وہ فکر کہ خود عقلِ بشر سَر بگریباں
وہ فقر کہ ٹھوکر میں ہے دنیا کی بلندی
وہ شکر کہ خالق بھی ترے شکر کا ممنون
وہ حُسن کہ یوسفؑ بھی کرے آئینہ بندی
وہ علم کہ قرآں تِری عِترت کا قصیدہ
وہ حِلم کہ دشمن کو بھی امیدِ کرم ہے
وہ صبر کہ شبیرؑ تری شاخِ ثمردار
وہ ضبط کہ جس ضبط میں عرفانِ اُمُم ہے
” اورنگِ سلیماں “ تری نعلین کا خاکہ
” اعجازِ مسیحا “ تری بکھری ہوئی خوشبو
” حُسنِ یدِ بیضا “ تری دہلیز کی خیرات
کونین کی سج دھج تری آرائشِ گیسو
سَر چشمۂ کوثر ترے سینے کا پسینہ
سایہ تری دیوار کا معیارِ اِرَم ہے
ذرے تری گلیوں کے مہ و انجمِ افلاک
” سورج “ ترے رہوار کا اک نقشِ قدم ہے
دنیا کے سلاطیں ترے جارُوب کشوں میں
عالم کے سکندر تری چوکھٹ کے بھکاری
گردُوں کی بلندی ، تری پاپوش کی پستی
جبریلؑ کے شہپر ترے بچوں کی سواری
دھرتی کے ذوِی العدل ، تِرے حاشیہ بردار
فردوس کی حوریں ، تِری بیٹی کی کنیزیں
کوثر ہو ، گلستانِ ارم ہو کہ وہ طُوبیٰ
لگتی ہیں ترے شہر کی بکھری ہوئی چیزیں
ظاہر ہو تو ہر برگِ گُلِ تَر تِری خوشبو
غائب ہو تو دنیا کو سراپا نہیں ملتا
وہ اسم ، کہ جس اسم کو لب چوم لیں ہر بار
وہ جسم کہ سورج کو بھی سایہ نہیں ملتا
احساس کے شعلوں میں پگھلتا ہوا سورج
انفاس کی شبنم میں ٹھٹھرتی ہوئی خوشبو
الہام کی بارش میں یہ بھیگے ہوئے الفاظ
اندازِ نگارش میں یہ حُسن رمِ آہو!
حیدرؓ تری ہیبت ہے تو حسنینؓ ترا حُسن
اصحاب وفادار تو نائب ترے معصوم
سلمٰیؓ تری عصمت ہے ، خدیجہؓ تری توقیر
زہراؓ تری قسمت ہے تو زینبؓ ترا مقسوم
کس رنگ سے ترتیب تجھے دیجیئے
تنویر کہ تصویر ، تصور کہ مصور ؟
کس نام سے امداد طلب کیجیے تجھ سے
یٰسین کہ طہٰ کہ مزمل کہ مدثر ؟
پیدا تری خاطر ہوئے اطرافِ دو عالم
کونین کی وسعت کا فسوں تیرے لیے ہے
ہر بحر کی موجوں میں تلاطم تری خاطر
ہر جھیل کے سینے میں سکوں تیرے لئے ہے
ہر پھول کی خوشبو ترے دامن سے ہے منسوب
ہر خار میں چاہت کی کھٹک تیرے لیے ہے
ہر دشت و بیاباں کی خموشی میں ترا راز
ہر شاخ میں زلفوں سی لٹک تیرے لئے ہے
”دن“ تیری صباحت ہے تو شب تیری علامت
گُل تیرا تبسم ہے ، ستارے ترے آنسو !
آغازِ بہاراں تری انگڑائی کی تصویر
دِلدارئ باراں ترے بھیگے ہوئے گیسو
کہسار کے جھرنے ، ترے ماتھے کی شعاعیں
یہ قوسِ قزح ، عارضِ رنگیں کی شکن ہے
یہ ” کاہکشاں“ دھول ہے نقشِ کفِ پا کی
ثقلین ترا صدقۂ انوارِ بدن ہے
ہر شہر کی رونق ترے رستے کی جمی دھول
ہر بَن کی اداسی ، تری آہٹ کی تھکن ہے
جنگل کی فَضا تیری متانت کی علامت
بستی کی پھبن تیرے تبسم کی کِرن ہے
میداں ترے بُوذر کی حکومت کے مضافات
کہسار ترے قنبر و سلماں کے بسیرے
صحرا ، ترے حبشی کی محبت کے مصلّے !
گلزار ترے میثم و مِقداد کے ڈیرے
کیا ذہن میں آئے کہ تو اترا تھا کہاں سے ؟
کیا کوئی بتائے تری سرحد ہے کہاں تک ؟
پہنچی ہے جہاں پر تری نعلین کی مٹی
خاکسترِ جبریل بھی پہنچے نہ وہاں تک
سوچیں تو خدائی تری مرہونِ تصور
دیکھیں تو خدائی سے ہر انداز جدا ہے
یہ کام بشر کا ہے نہ جبریلؑ کے بس میں
تو خود ہی بتا اے مرے نبیﷺ کہ تو کیا ہے ؟
کہنے کو تو ملبوسِ بشر اوڑھ کے آیا
لیکن ترے احکام فلک پر بھی چلے ہیں
انگلی کا اشارہ تھا کہ تقدیر کی ضَربت
مہتاب کے ٹکڑے تری جھولی میں گِرے ہیں
کہنے کو تو بستر بھی میسر نہ تھا تجھ کو
لیکن تری دہلیز پہ اترے ہیں ستارے
انبوہِ ملائک نے ہمیشہ تری خاطر
پلکوں سے ترے شہر کے رَستے بھی سنوارے
کہنے کو تو اُمّی تھا لقب دہر میں تیرا
لیکن تو معارِف کا گلستاں نظر آیا
اک تُو ہی نہیں صاحبِ آیاتِ سماوات
ہر فرد ترا وارثِ قرآں نظر آیا
کہنے کو تو فاقوں پہ بھی گزریں تری راتیں
اسلام مگر اب بھی نمک خوار ہے تیرا
تُو نے ہی سکھائی ہے تمیزِ من و یزداں
انسان کی گردن پہ سدا بار ہے تیرا
کہنے کو ترے سر پہ ہے دستارِ یتیمی
لیکن تو زمانے کے یتیموں کا سہارا
کہنے کو ترا فقر ترے فخر کا باعث
لیکن تُو سخاوت کے سمندر کا کنارا
کہنے کو تو ہجرت بھی گوارا تجھے لیکن
عالم کا دھڑکتا ہوا دل تیرا مکاں ہے
کہنے کو تو مَسکن تھا ترا دشت میں لیکن
ہر ذرہ تری بخششِ پیہم کا نشاں ہے
کہنے کو تو اک ” غارِ حرا“ میں تیری مسند
لیکن یہ فلک بھی تری نظروں میں ” کفِ خاک“
کہنے کو تو ”خاموش“ مگر جنبشِ لب سے
دامانِ عرب گرد ، گریبانِ عجم چاک
اے فکرِ مکمل ، رُخِ فطرت ، لبِ عالم
اے ہادئ کُل ، ختم رُسل ، رحمتِ پیہم
اے واقفِ معراجِ بشر ، وارثِ کونین
اے مقصدِ تخلیقِ زماں ، حُسنِ مجسم
نسلِ بنی آدم کے حسیں قافلہ سالار
انبوہِ ملائک کے لیے ظلِّ الٰہی !
پیغمبرِ فردوسِ بریں ، ساقیِ کوثر
اے منزلِ ادراک ، دِل و دیدہ پناہی
اے باعثِ آئینِ شب و روزِ خلائق
اے حلقۂ ارواحِ مقدس کے پیمبرﷺ
اے تاجوَرِ بزمِ شریعت ، مرے آقا
اے عارفِ معراجِ بشر ، صاحبِ منبر
اے سیّد و سَرخیل و سر افراز و سخن ساز
اے صادق و سجّاد و سخی ، صاحبِ اسرار
اے فکرِ جہاں زیب و جہاں گیر و جہاں تاب
اے فقرِ جہاں سوز و جہاں ساز و جہاں دار
اے صابر و صنّاع و صمیمِ وصفِ اوصاف
اے سرورِ کونین و سمیعِ یمِ اصوات
میزانِ اَنا ، مکتبِ پندارِ تیقُّن !
اعزازِ خودی ، مصدرِ صد رُشد و ہدایات
اے شاکر و مشکور و شکیلِ شبِ عالم
اے ناصر و منصور و نصیرِ دلِ انسان
اے شاہد و مشہود و شہیدِ رُخِ توحید ،
اے ناظر و منظور و نظیرِ لبِ یزداں
اے یوسفؑ و یعقوبؑ کی اُمّید کا محور
اے بابِ مناجاتِ دلِ یونسؑ و ادریسؑ
اے نُوحؑ کی کشتی کے لیے ساحلِ تسکیں
اے قبلۂ حاجاتِ سلیماںؑ شہِ بلقیس
اے والئِ یثرب مری فریاد بھی سُن لے !
اے وارثِ کونین میں لَب کھول رہا ہوں
زخمی ہے زباں ، خامۂ دل خون میں تر ہے
شاعر ہوں مگر دیکھ مَیں سچ بول رہا ہوں
تُو نے تو مجھے اپنے معارف سے نوازا
لیکن میں ابھی خود سے شناسا بھی نہیں ہوں
تُو نے تو عطا کی تھی مجھے دولتِ عِرفاں
لیکن میں جہالت کے اندھیروں میں گھِرا ہوں
بخشش کا سمندر تھا ترا لطف و کرم بھی
لیکن میں تیرا لطف و کرم بھول چکا ہوں
بکھری ہے کچھ ایسے شبِ تیرہ کی سیاہی
میں شعلگیِ شمعِ حرم بھول چکا ہوں
تُو نے تو مجھے کفر کی پستی سے نکالا
میں پھر بھی رہا قامتِ الحاد کا پابند
تُو نے تو مرے زخم کو شبنم کی زباں دی
میں پھر بھی تڑپتا ہی رہا صورتِ اَسپند
تُو نے تو مجھے نکتۂ شیریں بھی بتایا
میں پھر بھی رہا معتقدِ تلخ کلامی
تُو نے تو مرا داغِ جبیں دھو بھی دیا تھا
میں پھر بھی رہا صید و ثنا خوانِ غلامی
تُو نے تو مسلط کیا افلاک پہ مجھ کو
میں پھر بھی رہا خاک کے ذرّوں کا پجاری
تُو نے تو ستارے بھی نچھاور کئے مجھ پر
میں پھر بھی رہا تیرگئ شب کا شکاری
تُو نے تو مجھے درسِ مساوات دیا تھا
میں پھر بھی مَن و تُو کے مراحل میں رہا ہوں
تُو نے تو جدا کر کے دکھایا حق و باطل
میں پھر بھی تمیزِ حق و باطل میں رہا ہوں
تُو نے تو کہا تھا کہ زمیں سب کے لیے ہے
میں نے کئی خطوں میں اسے بانٹ دیا ہے
تُو نے جسے ٹھوکر کے بھی قابل نہیں سمجھا
میں نے اُسی کنکر کو گہر مان لیا ہے
تُو نے تو کہا تھا کہ زمانے کا خداوند
انساں کے خیالوں میں کبھی آ نہیں سکتا
لیکن میں جہالت کے سبب صرف یہ سمجھا
وہ کیسا خدا ؟ جس کو بشر پا نہیں سکتا
تُو نے تو کہا تھا کہ وہ اونچا ہے خِرد سے
مَیں نے یہی چاہا اتر آئے وہ خِرد میں
تو نے تو کہا تھا ” اَحد“ ہے وہ اَزل سے
میں نے اُسے ڈھونڈا ہے سدا ”حِسّ و عدد“ میں
اب یہ ہے کہ دنیا ہے مری تیرہ و تاریک
سایۂ غمِ دوراں کا محیطِ دل و جاں ہے
ہر لمحہ اداسی کے تصرف میں ہے احساس
تا حدِ نظر خوفِ مسلسل کا دھواں ہے
صحرائے غم و یاس میں پھیلی ہے کڑی دھوپ
کچھ لمسِ کفِ موجِ صبا تک نہیں ملتا
بے اَنت سرابوں میں کہاں جادۂ منزل ؟
اپنا ہی نشانِ کفِ پا تک نہیں ملتا
اَعصاب شکستہ ہیں تو چھلنی ہیں نگاہیں
احساسِ بہاراں ، نہ غمِ فصلِ خزاں ہے
آندھی کی ہتھیلی پہ ہے جگنو کی طرح دل
شعلوں کے تصرف میں رگِ غنچۂ جاں ہے
ہر سمت ہے رنج و غم و آلام کی بارش
سینے میں ہر اک سانس بھی نیزے کی اَنی ہے
اب آنکھ کا آئینہ سنبھالوں میں کہاں تک
جو اشک بھی بہتا ہے وہ ہیرے کی کنی ہے
احباب بھی اعداء کی طرح تیر بکف ہیں ،
اب موت بھٹکتی ہے صفِ چارہ گراں میں
سنسان ہے مقتل کی طرح شہرِ تصور
سہمی ہوئی رہتی ہے فغاں، خیمۂ جاں میں
read more
جس نے سمجھا عِشقِ محبُوبِ خدا کیا چیز ہے
our
Monday, May 29, 2023
درد ہو گر دل میں،،،،تو دوا کیجیئے،
درد ہو گر دل میں،،،،تو دوا کیجیئے
دل ہی جب درد ہو ،,,,,,تو کیا کیجئے
ہم کو فریاد کرنی آتی ہے
آپ ہی سنتے نہیں تو کیا کیجیئے
ان بتوں کو خدا سے کیا مطلب؟
طوبہ طوبہ ،خدا خدا کیجیئے
رنج اٹہانے سے بہی خوشی ہوگی
پہلے دل درد ........ آشنا کیجیئے
عرضِ شوخی نشاطِ عالم ہے
حسن کو اور خوش نما کیجئیے
دشمنی ہو چکی بہ قدرِ وفا
اب حقِ دوستی ادا کیجیئے
موت آتی نہیں_____ کہیں غالب
کب تک افسوس زیست کا کیجے
مرزا اسد اللہ غالب
read more
من کو سمجھایا تھا کہ اِس عشق وِشق سے دور رہنا
our
Subscribe to:
Posts (Atom)
-
مرے بس میں کاش یارب وہ سِتم شعار ہوتا مرے بس میں کاش یارب وہ سِتم شعار ہوتا یہ نہ تھا تو کاش دِل پر مُجھے اختیار ہوتا پسِ مرگ کاش یونہى ...
-
اب یہ عالم ہے کہ غم کی بھی خبر ہوتی نہیں اشک بہہ جاتے ہیں لیکن آنکھ تر ہوتی نہیں پھر کوئی کم بخت کشتی نذر طوفاں ہو گئی ورنہ ساحل پر اداسی اس...