Based on the source provided, you can **find poetry in Urdu by famous Pakistani and Indian poets**. The source indicates that it is easy to **text copy and paste Urdu poetry** and to **read the famous Urdu shayari and the latest**.
Tuesday, August 1, 2023
Sunday, July 30, 2023
ﺗﻢ ﺗﻮ ﻭﻓﺎ ﺷﻨﺎﺱ ﻭ ﻣﺤﺒﺖ ﻧﻮﺍﺯ ﮬﻮ
ﺗﻢ ﺗﻮ ﻭﻓﺎ ﺷﻨﺎﺱ ﻭ ﻣﺤﺒﺖ ﻧﻮﺍﺯ ﮬﻮ
ﮬﺎﮞ ، ﻣﯿﮟ ﺩﻏﺎ ﺷﻌﺎﺭ ﺳﮩﯽ، ﺑﮯ ﻭﻓﺎ ﺳﮩﯽ
ﺗﻢ ﮐﻮ ﺗﻮ ﻧﺎﺯ ﮬﮯ ﺩﻝِ ﺍﻟﻔﺖ ﻧﺼﯿﺐ ﭘﺮ
ﻣﯿﮟ ﻣﺎﺟﺮﺍﺋﮯ ﺩﺭﺩ ﺳﮯ ﻧﺎ ﺁﺷﻨﺎ ﺳﮩﯽ
ﻧﺎ ﺁﺷﻨﺎﺋﮯ ﺩﺭﺩ ﮐﻮ ﺷﮑﻮﮦ ﺳﮯ ﮐﯿﺎ ﻏﺮﺽ
ﺗﻢ ﮐﻮ ﺷﮑﺎﯾﺖِ ﻏﻢِ ﻓﺮﻗﺖ ﺭﻭﺍ ﺳﮩﯽ
ﺗﻢ ﮐﻮ ﺗﻮ ﺭﺳﻢِ ﻇﻠﻢ ﻭ ﺳﺘﻢ ﺳﮯ ﮬﮯ
ﺍﺟﺘﻨﺎﺏ
ﺗﻢ ﺳﺮ ﺑﺴﺮ ﻋﻄﺎ ﺳﮩﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺧﻄﺎ
ﺳﮩﯽ
ﻣﯿﮟ ﻣﺤﻔﻞِ ﻧﺸﺎﻁ ﻣﯿﮟ ﻧﻐﻤﮧ ﻃﺮﺍﺯِ ﺷﻮﻕ
ﺗﻢ ﺯﯾﺮِ ﻟﺐ ﺗﺒﺴﻢِ ﺣﺴﺮﺕ ﻧﻤﺎ ﺳﮩﯽ
ﺗﻢ ﮐﻮ ﺧﯿﺎﻝِ ﻏﻢ ﺳﺒﺐِ ﺍﺿﻄﺮﺍﺏِ ﺩﻝ
ﻣﺠﮫ ﮐﻮ ﺑﯿﺎﻥِ ﺩﺭﺩ ﻣﺴﺮﺕ ﻓﻀﺎ ﺳﮩﯽ
ﺗﻢ ﮐﻮ ﻣﯿﺮﺍ ﺗﺴﺎﮨﻞِ ﺧﻂ ﻭﺟﮧِ ﺍﻧﺘﺸﺎﺭ
ﻣﺠﮫ ﮐﻮ ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﻃﺮﺯِ ﺗﻐﺎﻓﻞ ﺍﺩﺍ ﺳﮩﯽ
ﻣﯿﮟ ﺍﻧﺘﻈﺎﺭِ ﺧﻂ ﮐﯽ ﺻﻌﻮﺑﺖ ﺳﮯ ﺑﮯ
ﺧﺒﺮ
ﺗﻢ ﺍﻧﺘﻈﺎﺭِ ﺧﻂ ﻣﯿﮟ ﺳﺪﺍ ﻣﺒﺘﻼ ﺳﮩﯽ
ﻣﯿﮟ ﺍﺷﺘﯿﺎﻕِ ﺩﯾﺪ ﻭ ﻣﺮﻭﺕ ﺳﮯ ﺑﮯ ﻧﯿﺎﺯ
ﺍﻭﺭ ﺗﻢ ﻧﮕﺎﺭ ﺧﺎﻧﮧِ ﻣﮩﺮ ﻭ ﻭﻓﺎ ﺳﮩﯽ
ادا جعفری
Read more
Our
اور اس دل میں کیا رکھا ہے
اور اس دل میں کیا رکھا ہے
تیرا ہی درد چھپا رکھا ہے
اتنے دکھوں کی تیز ہوا میں
دل کا دیپ جلا رکھا ہے
دھوپ سے چہروں نے دنیا
میں
کیا اندھیر مچا رکھا ہے
اس نگری کے کچھ لوگوں نے
دکھ کا نام دوا رکھا ہے
وعدۂ یار کی بات نہ چھیڑو
یہ دھوکا بھی کھا رکھا ہے
بھول بھی جاؤ بیتی باتیں
ان باتوں میں کیا رکھا ہے
چپ چپ کیوں رہتے ہو ناصر
یہ کیا روگ لگا رکھا ہے
دیوان ناصر کاظمی
Read more
دِلِ گمشدہ! کبھی مل ذراکسی
Our
چلو وہ عشق نہیں چاہنے کی عادت ہے
گفتگو اچھی لگی ذوق نظر اچھا لگا
گفتگو اچھی لگی ذوق نظر
اچھا لگا
مدتوں کے بعد کوئی ہم سفر
اچھا لگا
دل کا دکھ جانا تو دل کا
مسئلہ ہے پر ہمیں
اس کا ہنس دینا ہمارے حال
پر اچھا لگا
ہر طرح کی بے سر و
سامانیوں کے باوجود
آج وہ آیا تو مجھ کو اپنا گھر
اچھا لگا
باغباں گلچیں کو چاہے جو
کہے ہم کو تو پھول
شاخ سے بڑھ کر کف دل دار
پر اچھا لگا
کوئی مقتل میں نہ پہنچا کون
ظالم تھا جسے
تیغ قاتل سے زیادہ اپنا سر
اچھا لگا
ہم بھی قائل ہیں وفا میں
استواری کے مگر
کوئی پوچھے کون کس کو
عمر بھر اچھا لگا
اپنی اپنی چاہتیں ہیں لوگ
اب جو بھی کہیں
اک پری پیکر کو اک آشفتہ سر
اچھا لگا
میرؔ کے مانند اکثر زیست کرتا
تھا فرازؔ
تھا تو وہ دیوانہ سا شاعر
مگر اچھا لگا
احمد فراز
Read more
آپھر کریں یار طرحدار،کی باتیں
Our
میرے دل کے سبھی موسم اسی پہ جا کے کھلتے تھے
Wednesday, July 26, 2023
لہرائے سدا آنکھ میں پیارے تیرا آنچل
لہرائے سدا آنکھ میں پیارے تیرا آنچل
جھومر ہے تیرا چاند ــ ســتارے تیرا آنچل
اَب تک میری یادوں میں ہے رنگوں کا تلاطم
دیکھا تھا کبھی ــ جھیل کنارے تیرا آنچل
لپٹے کبھی شانوں سے کبھی زُلف سے اُلجھے
کیوں ڈُھونڈھتا رہتا ہے ــ سہارے تیرا آنچل
مہکیں تیری خوشبُو سے دہکتی ہُوئی سانسیں
جب تیز ہوا ــ خود سے اُتارے تیرا آنچل
آنچل میں رَچے رنگ نِکھاریں تیری زُلفیں
اُلجھی ہوُئی زُلفوں کو ــ سنوارے تیرا آنچل
اس وقت ہے تتلی کی طرح دوشِ ہوَا پر
اس وقت کہاں ــ بس میں ہمارے تیرا آنچل
کاجل تیرا بَہہ بَہہ کے رُلائے مجھے اَب بھی
رَہ رَہ کے مجھے اَب بھی ــ پُکارے تیرا آنچل
محسنؔ نقوی
read more
اہل خرز نہ آج تک،ڈھونڈ سکے نہ جواز عشق
our
Tuesday, July 18, 2023
دکھ فسانہ نہیں کہ تجھ سے کہیں
دکھ فسانہ نہیں کہ تجھ سے کہیں
دل بھی مانا نہیں کہ تجھ سے کہیں
آج تک اپنی بیکلی کا سبب
خود بھی جانا نہیں کہ تجھ سے کہیں
بے طرح حال دل ہے اور تجھ سے
دوستانہ نہیں کہ تجھ سے کہیں
ایک تو حرف آشنا تھا مگر
اب زمانہ نہیں کہ تجھ سے کہیں
قاصدا ہم فقیر لوگوں کا
اک ٹھکانہ نہیں کہ تجھ سے کہیں
اے خدا درد دل ہے بخشش دوست
آب و دانہ نہیں کہ تجھ سے کہیں
اب تو اپنا بھی اس گلی میں فرازؔ
آنا جانا نہیں کہ تجھ سے کہیں
احمد فراز
read more
our
اب وہ منظر نہ وہ چہرے ہی نظر آتے ہیں
اب وہ منظر نہ وہ چہرے ہی نظر آتے ہیں
مجھ کو معلوم نہ تھا خواب بھی مر جاتے ہیں
جانے کس حال میں ہم ہیں کہ ہمیں دیکھ کے سب
ایک پل کے لیے رکتے ہیں گزر جاتے ہیں
طعنہٓ نشّہ نہ دو سب کو کہ کچھ سوختہ جاں
شدّتِ تشنہ لبی سے بھی بہک جاتے ہیں
جیسے تجدید تعلّق کی بھی رُت ہو کوئی
زخم بھرتے ہیں تو غمخوار بھی آ جاتے ہیں
احتیاط اہلِ محبت کہ اسی شہر میں لوگ
گُل بدست آتے ہیں اور پا بہ رسن جاتے ہیں
احمد فراز
read more
our
Saturday, July 15, 2023
کیوں زیاں کار بنوں،سُود فراموش رہوں
شکوہ ڈاکٹر علامہ محمد اقبال
کیوں زیاں کار بنوں،سُود فراموش رہوں
فکرِ فردا نہ کروں،محوِ غمِ دوش رہوں
نالے بُلبُل کے سُنوں اور ہمہ تن گوش رہوں
ہم نوا میں بھی کوئی گُل ہوں کہ خاموش رہوں
جُرأت آموز میری تابِ سخن ہے مجھ کو
شکوہ اللہ سے،حاکمِ بدہن ہے مجھ کو
ہے بجا شیوۂ تسلیم میں مشہور ہیں ہم
قصّۂ درد سُناتے ہیں کہ مجبور ہیں ہم
ساز خاموش ہیں ،فریاد سے معمور ہیں ہم
نالہ آتا ہے اگر لب پہ تو معذور ہیں ہم
اے خدا! شکوۂ اربابِ وفا بھی سُن لے
خوگرِ حمد سے تھوڑا سا گِلا بھی سُن لے
تھی توموجود ازل سے ہی تری ذاتِ قدیم
پُھول تھا زیب چمن پر نہ پریشان تھی شمیم
شرطِ اِنصاف ہے اَے صاحبِ الطافِ عمیم
بوئے گُل پھیلتی کِس طرح جو ہوتی نہ نسیم
ہم کو جمعیّتِ خاطر یہ پریشانی تھی
ورنہ اُمّت تیرے محبوبؐ کی دیوانی تھی؟
ہم سے پہلے تھا عجب تیرے جہان کا منظر
کہیں مسجود تھے پتّھر،کہیں معبود شجر
خُوگرِ پیکرِ محسوس تھی اِنساں کی نظر
مانتا پھر کوئی اَن دیکھے خدا کو کیونکر
تجھ کو معلوم ہے لیتا تھا کوئی نام ترا؟
قوّتِ بازوئے مسلم نے کیا کام ترا
بس رہے تھے یہیں سلجوق بھی ،تُورانی بھی
اہلِ چیں چین میں،ایران میں ساسانی بھی
اِس معمورے میں آباد تھے یونانی بھی
اِسی دُنیا میں یہودی بھی تھے،نصرانی بھی
پر ترے نام پہ تلوار اُٹھائی کس نے
بات جو بگڑی ہوئی تھی،وہ بنائی کس نے
تھے ہمیں ایک ترے معرکہ آراؤں میں
خشکیوں میں کبھی لڑتے ،کبھی دریاؤں میں
دِیں اذانیں کبھی یورپ کے کلیساؤں میں
کبھی افریقہ کے تپتے ہوئے صحراؤں میں
شان آنکھوں میں نہ جچتی تھی جہاں داروں کی
کلمہ پڑھتے تھے ہم چھاؤں میں تلواروں کی
ہم جو جیتے تھے تو جنگوں کی میصبت کے لئے
اور مرتے تھے ترے نام کی عظمت کے لئے
تھی نہ کچھ تیغ زنی اپنی حکومت کے لئے
سر بکف پھرتے تھے کیا،کیا دہر میں دولت کے لئے؟
قوم اپنی جو زرومالِ جہاں پہ مرتی
بُت فروشی کے عِوض بُت شکنی کیوں کرتی؟
ٹل نہ سکتے تھے اگر جنگ میں اڑ جاتے تھے
پاؤں شیر کے بھی میداں سے اُکھڑ جاتے تھے
تجھ سے سر کش جو ہوا کوئی تو بگڑ جاتے تھے
تیغ کیا چیز ہے ہم توپ سے بھی لڑ جاتے تھے
نقش توحید کاہر دِل پہ بٹھایا ہم نے
زیرِ حنجر بھی یہ پیغام سُنایا ہم نے
تُو ہی کہہ دے کہ اُکھاڑا درِ خیبر کس نے
شہر قیصر کا جوتھا،اُسکو کیا سَر کس نے
توڑے مخلوق خداوندوں کے پیکر کس نے
کاٹ کے رکھ دیے کفّار کے لشکر کس نے
کس نے ٹھنڈا کیا آتشکدۂ ایراں کو؟
کس نے پھر زندہ کیا تذکرۂ یزداں کو؟
کون سی قوم فقط تیری طلبگار ہوئی
اور تیرے لئے زحمت کشِ پیکار ہوئی
کِس کی شمشیر جہاں گیر،جہاں دار ہوئی
کس کی تکبیر سے دنیا تری بیدار ہوئی
کس کی ہیبت سے صنم سہمے ہوئے رہتے تھے
مُنہ کے بَل گر کے "ھُوَ اللہُ اَحَد"کہتے تھے
آگیا عین لڑائی میں اگر وقتِ نماز
قبلہ رُو ہو کے زمیں بوس ہوئی قومِ حجاز
ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز
بندہ و صاحب و محتاج و غنی ایک ہوئے
تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے
محفلِ کون و مکاں میں سحر و شام پھرے
مئے توحید کو لے کر صفتِ جام پھرے
کوہ میں، دشت میں لے کر ترا پیغام پھرے
اور معلوم ہے تجھ کو،کبھی ناکام پھرے
دشت تو دشت ہیں ،دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے
بحرِ ظلمات میں دوڑا دیے گھوڑے ہم نے
صفحۂ دۃر سے باطل سے مٹایا ہم نے
نوعِ انساں کو غلامی سے چھڑایا ہم نے
تیرے کعبے کو جبینوں سے بسایا ہم نے
تیرے قرآن کو سینوں سے لگایا ہم نے
پھر بھی ہم سے یہ گِلا ہے کہ وفادار نہیں
ہم وفادار نہیں،تُو بھی تو دِلدار نہیں
اُمتیں اور بھی ہیں ، اُن میں گناہگار بھی ہیں
عجز والے بھی ہیں، مست مئے پندار بھی ہیں
ان میں کاہل بھی ہیں،غافل بھی ہیں،ہشیار بھی ہیں
سینکڑوں ہیں کہ ترے نام سے بیزار بھی ہیں
رحمتیں ہیں تری اغیار کے کاشنوں پر
برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر
بُت صنم خانوں مین کہتےہیں مسلماں گئے
ہے خوشی ان کو کہ کعبے کے نگہبان گئے
منزلِ دہر سے اونٹوں کے حدی خواں گئ
اپنی بغلوں میں دبائے ہوئے قرآن گئے
خندہ زن ہے کُفر،احساس تجھے ہے کے نہیں
اپنی توحید کا کچھ پاس تجھے ہے کہ نہیں
یہ شکایت نہیں، ہیں اُنکے خزانے معمور
نہیں محفل میں جنھیں بات بھی کرنے کا شعور
قہر تو یہ ہے کہ کافر کو ملیں حُور و قصور
اور بیچارے مسلماں کو فقط وعدۂ حور
اب وہ الطاف نہیں، ہم پہ عنایات نہیں
بات یہ کیا ہے کہ پہلی سی مدارات نہیں
کیوں مسلماں میں ہے دولتِ دنیا نایاب
تیری قدرت تو ہے وہ جس کی نہ حد ہے نہ حساب
تُو جو چاہے تو اُٹھے سینۂ صحرا سے حباب
رہروِ دشت ہو سیلی زدۂ موجِ سراب
طعنِ اغیار ہے، رسوائی ہے،ناداری ہے
کیا تیرے نام پہ مرنے کا عوض خواری ہے؟
بنی اغیار کی چاہنے والی دنیا
رہ گئی اپنے لئے ایک خیالی دنیا
ہم تو رخصت ہوئے اوروں نے سنبھالی دنیا
پھر نہ کہنا ہوئی توحید سے حالی دنیا
ہم تو جیتے ہیں کہ دنیا میں تیرا نام رہے
کہیں ممکن ہےکہ ساقی نہ رہے، جام رہے؟
تیری محفل بھی گئی، چاہنے والے بھی گئے
شب کی آہیں بھی گئیں، صبح کے نالے بھی گئے
دل تجھے دے بھی گئے، اپنی صِلا لے بھی گئے
آ کے بیٹھے بھی نہ تھے کہ نکالے بھی گئے
آئے عشّاق، گئے وعدۂ فردا لے کر
اب اُنھیں ڈھونڈ چراغِ رُخِ زیبا لے کر
دردِ لیلیٰ بھی وہی،قیس کا پہلو بھی وہی
نجد کے دشت و جبل میں رَمِ آہو بھہ وہی
عشق کا دل بھی وہی،خسن کا جادو بھی وہی
اُمّتِ احمدِ مرسل بھی وہی، تُو بھی وہی
پھر یہ آزردگیِ غیر سبب کا معنی
اپنے شیداؤں یہ چشمِ غضب کیا معنی
تجھ کو چھوڑا کہ رسولِ عربی کو چھوڑا؟
بُت گری پیشہ کیا، بت شکنی کو چھوڑا؟
عشق کو، عشق کی آشفتہ سری کو چھوڑا؟
رسمِ سلمانؓو اویس قرنیؓ کو چھوڑا؟
آگ تکبیر کی سینوں میں دبی رکھتے ہیں
زندگی مثلِ بلال حبشی رکھتے ہیں
عشق کی خیر وہ پہلے سی ادا بھی نہ سہی
جادہ پیمائیِ تسلیم و رضا بھی نہ سہی
مُضطِرب دل صفت قبلہ نما بھی نہ سہی
اور پابندیِ آئینِ وفا بھی نہ سہی
کبھی ہم سے، کبھی غیروں سے شناسائی ہے
بات کہنے کی نہیں،تُو بھی تو ہرجائی ہے
سرِ فاران کیا دین کو کامل تُو نے
اِک اشارے میں پزروں کے لئے دل تُو نے
آتش اندوز کیا عشق کا حاصل تُو نے
پُھونک دی گرمیِ رُخسار سے محفل تُو نے
آج کیوں سینے ہمارے شرر بار نہیں
ہم وہی سوختہ ساماں ہیں، تجھے یاد نہیں؟
وادی نجد میں وہ شورِ سلاسل نہ رہا
قیس دیوانۂ نظّارۂ محمل نہ رہا
حوصلے وہ نہ رہے،ہم نہ رہے، دل نہ رہا
گھر یہ اُجڑا ہے کہ تُو رونقِ محفل نہ رہا
اے خوش آں روز کہ آئی و بصد ناز آئی
بے حجابانہ سُوئے محفلِ ما باز آئی
بادہ کش غیر ہیں گلشن میں لبِ جُو بیٹھے
سُنتے ہیں جام بکف نغمۂ کُو کُو بیٹے
سور ہنگامۂ گُلزار سے یک سُو بیٹھے
تیرے دیوانے بھی ہیں مُنتظر "ھُو" بیٹھے
اپنے پروانوں کی پھر ذوقِ خُود افروزی دے
برقِ دیرینہ کو فرمانِ جگر سوزی دے
قوم آوارہ عناں تاب ہے پھر سُوئے حجاز
لے اُرا بلبلِ بے پر کو مذاقِ پرواز
مضطرب باغ کے ہر غنچے میں ہے، بُوئے نیاز
تُو ذرا چھیڑ تو دے، تشنۂ مضراب ہے ساز
نغمے بیتاب ہیں تاروں سے نلکنے کے لئے
طُور مضطر ہے اُسی آگ میں جلنے کے لئے
مُشکلیں اُمّتِ مرحوم کی آساں کردے
مُورِ بے مایہ کو ہمدوشِ سلیماں کردے
جنس نایابِ محبّت کو پھر ارزاں کر دے
ہند کے دَیر نشینوں کو مسلماں کر دے
جُوئے خوں می چکدا از حسرتِ دیرینہ ما
می تپد نالۂ بہ نشتر کدۂ سینۂ ما
بُوئے گُل لے گئی بیرون چمن رازِ چمن
کیا قیامت ہے کہ خود کہ خود پُھول ہیں غمّازِ چمن
عہدِ گُل ختم ہوا، ٹوٹ گیا سازِ چمن
اُڑ گئے دالیوں سے زمزمہ پرداز چمن
ایک بُلبل ہے کہ محو ترنّم ہے اب تک
اس کے سینے میں ہے نغموں کا تلاطم اب تک
قُمریاں شاخِ صنوبر سے گریزاں بھی ہوئیں
پتّیاں پُھول کی جھڑ جھڑ کے پریشاں بھی ہوئیں
وہ پرانی روشیں باغ کی ویراں بھی ہوئیں
ڈالیاں پیرہنِ برگ سے عُریاں بھی ہوئیں
قیدِ موسم سے طبیعت رہی آزاد اس کی
کاش گُلشن سمجھتا کوئی فریاد اس کی
لُطف مرنے میں ہے، نہ مزا جینے میں
کچھ مزا ہے تو یہی خونِ جگر پینے میں
کتنے بیتاب ہیں جوہر مرے آئینے میں
کس قدر جلواے تڑپ رہے ہیں مرے سینے میں
اس گُلستان میں مگر دیکھنے والے ہی نہیں
داغ جو سینے میں رکھتا ہوں، وہ لالے ہی نہیں
چاک اس بُلبلِ تنہا کی نوا سے دل ہوں
جاگنے والے اسی بانگِ درا سے دل ہوں
یعنی پھر زندہ نئے عہدِ وفا سے دل ہوں
پھر اِسی بادۂ دیرینہ کے پیاسے دل ہوں
عجمی خُم ہے تو کیا،مے تو حجازی ہے مری
نغمہ ہندی ہے تو کیا،لَے تو حجازی ہے مری
کلام :ڈاکٹر علامہ محمد اقبال
read more
our
Thursday, July 13, 2023
کچھ اس ادا سے آج وہ پہلو نشیں رہے
کچھ اس ادا سے آج وہ پہلو نشیں رہے
جب تک ہمارے پاس رہے ہم نہیں رہے
ایمان و کفر اور نہ دنیا و دیں رہے
اے عشق شاد باش کہ تنہا ہمیں رہے
عالم جب ایک حال پہ قائم نہیں رہے
کیا خاک اعتبار نگاہ یقیں رہے
میری زباں پہ شکوہ درد آفریں رہے
شاید مرے حواس ٹھکانے نہیں رہے
جب تک الٰہی جسم میں جان حزیں رہے
نظریں مری جوان رہیں دل حسیں رہے
یارب کسی کے راز محبت کی خیر ہو
دست جنوں رہے نہ رہے آستیں رہے
تا چند جوش عشق میں دل کی حفاظتیں
میری بلا سے اب وہ جنونی کہیں رہے
جا اور کوئی ضبط کی دنیا تلاش کر
اے عشق ہم تو اب ترے قابل نہیں رہے
مجھ کو نہیں قبول دو عالم کی وسعتیں
قسمت میں کوئے یار کی دو گز زمیں رہے
اے عشق نالہ کش تری غیرت کو کیا ہوا
ہے ہے عرق عرق وہ تن نازنیں رہے
درد و غم فراق کے یہ سخت مرحلے
حیراں ہوں میں کہ پھر بھی تم اتنے حسیں رہے
اللہ رے چشم یار کی معجز بیانیاں
ہر اک کو ہے گماں کہ مخاطب ہمیں رہے
ظالم اٹھا تو پردۂ وہم و گمان و فکر
کیا سامنے وہ مرحلہ ہائے یقیں رہے
ذات و صفات حسن کا عالم نظر میں ہے
محدود سجدہ کیا مرا ذوق جبیں رہے
کس درد سے کسی نے کہا آج بزم میں
اچھا یہ ہے وہ ننگ محبت یہیں رہے
سر دادگان عشق و محبت کی کیا کمی
قاتل کی تیغ تیز خدا کی زمیں رہے
اس عشق کی تلافئ مافات دیکھنا
رونے کی حسرتیں ہیں جب آنسو نہیں رہے
جگر مراد آبادی
read more
our
Wednesday, July 12, 2023
صدمہ تو ہے مجھے بھی کہ تجھ سے جدا ہوں میں
صدمہ تو ہے مجھے بھی کہ تجھ سے جدا ہوں میں
لیکن یہ سوچتا ہوں کہ اب تیرا کیا ہوں میں
بکھرا پڑا ہے تیرے ہی گھر میں ترا وجود
بے کار محفلوں میں تجھے ڈھونڈتا ہوں میں
میں خودکشی کے جرم کا کرتا ہوں اعتراف
اپنے بدن کی قبر میں کب سے گڑا ہوں میں
کس کس کا نام لاؤں زباں پر کہ تیرے ساتھ
ہر روز ایک شخص نیا دیکھتا ہوں میں
کیا جانے کس ادا سے لیا تو نے میرا نام
دنیا سمجھ رہی ہے کہ سچ مچ ترا ہوں میں
پہنچا جو تیرے در پہ تو محسوس یہ ہوا
لمبی سی ایک قطار میں جیسے کھڑا ہوں میں
لے میرے تجربوں سے سبق اے مرے رقیب
دو چار سال عمر میں تجھ سے بڑا ہوں میں
جاگا ہوا ضمیر وہ آئینہ ہے قتیلؔ
سونے سے پہلے روز جسے دیکھتا ہوں میں
قتیل شفائی
read more
our
Tuesday, July 11, 2023
تیرے خیال کی اک روشنی سی رہتی ہے
تیرے خیال کی اک روشنی سی رہتی ہے
ھر ملاقات میں اک تشنگی سی رہتی ہے
گئے دنوں کی ہی افسردگی کے عالم میں
یہ پیار رہے نہ رہے دوستی سی رہتی ہے
محبتوں کی بھی اک داستان حسرت ہے
خیالِ یار کی وہ جلوہ گری سی رہتی ہے
حسن ناداں ہی ہر ایک دل کی چاہت ہے
مریض عشق کی دنیا نئی سی رہتی ہے
دشت وحشت میں سر پٹختے ہیں ہر سو
دیوانے پن کی آشفتہ سری سی رہتی ہے
ھزار بار ھی پوری ھوں خواھشیں لیکن
کوئی تو حسرت دل آخری سی رہتی ہے
قیصر مُختار
read more
our
Subscribe to:
Posts (Atom)
-
مرے بس میں کاش یارب وہ سِتم شعار ہوتا مرے بس میں کاش یارب وہ سِتم شعار ہوتا یہ نہ تھا تو کاش دِل پر مُجھے اختیار ہوتا پسِ مرگ کاش یونہى ...
-
اب یہ عالم ہے کہ غم کی بھی خبر ہوتی نہیں اشک بہہ جاتے ہیں لیکن آنکھ تر ہوتی نہیں پھر کوئی کم بخت کشتی نذر طوفاں ہو گئی ورنہ ساحل پر اداسی اس...